Altaf Husain Hali ghazal in urdu | Urdu Ghazal &nazam

altaf husain hali

Altaf Husain Hali ghazal and poetry here available. we provide the best collection of Khwaja Altaf Husain hali nazama & Shayari, Read and download the latest ghazal of  Altaf Husain Hali. famous ghazal of Altaf Husain Hali in the world available in our collection who u want.

altaf husain hali images
altaf husain hali

He is a famous shayar and writes very lovely sad &romantic ghazal. if u want Altaf Husain Hali ghazal in Urdu font so please copy and paste on social media like Facebook Instagram. Best hail poetry ghazal long and short in Urdu available here.

click more ghazal of poet Ahmad Nadeem qasmi

(1).دھوم تھی اپنی پارسائی کی

دھوم تھی اپنی پارسائی کی
کی بھی اور کس سے آشنائی کی

کیوں بڑھاتے ہو اختلاط بہت
ہم کو طاقت نہیں جدائی کی

منہ کہاں تک چھپاؤ گے ہم سے
تم کو عادت ہے خود نمائی کی

لاگ میں ہیں لگاؤ کی باتیں
صلح میں چھیڑ ہے لڑائی کی

ملتے غیروں سے ہو ملو لیکن
ہم سے باتیں کرو صفائی کی

دل رہا پائے بند الفت دام
تھی عبث آرزو رہائی کی

دل بھی پہلو میں ہو تو یاں کس سے
رکھئے امید دل ربائی کی

شہر و دریا سے باغ و صحرا سے
بو نہیں آتی آشنائی کی

نہ ملا کوئی غارت ایماں
رہ گئی شرم پارسائی کی

بخت ہم داستانی شیدا
تو نے آخر کو نارسائی کی

صحبت گاہ گاہی رشکی
تو نے بھی ہم سے بے وفائی کی

موت کی طرح جس سے ڈرتے تھے
ساعت آ پہنچی اس جدائی کی

زندہ پھرنے کی ہے ہوس حالیؔ
انتہا ہے یہ بے حیائی کی

(2).حق وفا کے جو ہم جتانے لگے

حق وفا کے جو ہم جتانے لگے
آپ کچھ کہہ کے مسکرانے لگے

تھا یہاں دل میں طعن وصل عدو
عذر ان کی زباں پہ آنے لگے

ہم کو جینا پڑے گا فرقت میں
وہ اگر ہمت آزمانے لگے

ڈر ہے میری زباں نہ کھل جائے
اب وہ باتیں بہت بنانے لگے

جان بچتی نظر نہیں آتی
غیر الفت بہت جتانے لگے

تم کو کرنا پڑے گا عذر جفا
ہم اگر درد دل سنانے لگے

سخت مشکل ہے شیوۂ تسلیم
ہم بھی آخر کو جی چرانے لگے

جی میں ہے لوں رضائے پیر مغاں
قافلے پھر حرم کو جانے لگے

سر باطن کو فاش کر یا رب
اہل ظاہر بہت ستانے لگے

وقت رخصت تھا سخت حالیؔ پر
ہم بھی بیٹھے تھے جب وہ جانے لگے

(3)اب وہ اگلا سا التفات نہیں

اب وہ اگلا سا التفات نہیں
جس پہ بھولے تھے ہم وہ بات نہیں

مجھ کو تم سے اعتماد وفا
تم کو مجھ سے پر التفات نہیں

رنج کیا کیا ہیں ایک جان کے ساتھ
زندگی موت ہے حیات نہیں

یوں ہی گزرے تو سہل ہے لیکن
فرصت غم کو بھی ثبات نہیں

کوئی دل سوز ہو تو کیجے بیاں
سرسری دل کی واردات نہیں

ذرہ ذرہ ہے مظہر خورشید
جاگ اے آنکھ دن ہے رات نہیں

قیس ہو کوہ کن ہو یا حالیؔ
عاشقی کچھ کسی کی ذات نہیں

=================================================================

(4)ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھہرتی ہے دیکھیے جا کر نظر کہاں

ہیں دور جام اول شب میں خودی سے دور
ہوتی ہے آج دیکھیے ہم کو سحر کہاں

یا رب اس اختلاط کا انجام ہو بخیر
تھا اس کو ہم سے ربط مگر اس قدر کہاں

اک عمر چاہیئے کہ گوارا ہو نیش عشق
رکھی ہے آج لذت زخم جگر کہاں

بس ہو چکا بیاں کسل و رنج راہ کا
خط کا مرے جواب ہے اے نامہ بر کہاں

کون و مکاں سے ہے دل وحشی کنارہ گیر
اس خانماں خراب نے ڈھونڈا ہے گھر کہاں

ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور
عالم میں تجھ سے لاکھ سہی تو مگر کہاں

ہوتی نہیں قبول دعا ترک عشق کی
دل چاہتا نہ ہو تو زباں میں اثر کہاں

حالیؔ نشاط نغمہ و مے ڈھونڈھتے ہو اب
آئے ہو وقت صبح رہے رات بھر کہاں

 

(5)جیتے جی موت کے تم منہ میں نہ جانا ہرگز

جیتے جی موت کے تم منہ میں نہ جانا ہرگز
دوستو دل نہ لگانا نہ لگانا ہرگز

عشق بھی تاک میں بیٹھا ہے نظر بازوں کی
دیکھنا شیر سے آنکھیں نہ لڑانا ہرگز

ہاتھ ملنے نہ ہوں پیری میں اگر حسرت سے
تو جوانی میں نہ یہ روگ بسانا ہرگز

جتنے رستے تھے ترے ہو گئے ویراں اے عشق
آ کے ویرانوں میں اب گھر نہ بسانا ہرگز

کوچ سب کر گئے دلی سے ترے قدر شناس
قدر یاں رہ کے اب اپنی نہ گنوانا ہرگز

تذکرہ دہلی مرحوم کا اے دوست نہ چھیڑ
نہ سنا جائے گا ہم سے یہ فسانہ ہرگز

ڈھونڈتا ہے دل شوریدہ بہانے مطرب
دردانگیز غزل کوئی نہ گانا ہرگز

صحبتیں اگلی مصور ہمیں یاد آئیں گی
کوئی دلچسپ مرقع نہ دکھانا ہرگز

لے کے داغ آئے گا سینے پہ بہت اے سیاح
دیکھ اس شہر کے کھنڈروں میں نہ جانا ہرگز

چپے چپے پہ ہیں یاں گوہر یکتا تہ خاک
دفن ہوگا کہیں اتنا نہ خزانہ ہرگز

مٹ گئے تیرے مٹانے کے نشاں بھی اب تو
اے فلک اس سے زیادہ نہ مٹانا ہرگز

وہ تو بھولے تھے ہمیں ہم بھی انہیں بھولگئے
ایسا بدلا ہے نہ بدلے گا زمانہ ہرگز

ہم کو گر تو نے رلایا تو رلایا اے چرخ
ہم پہ غیروں کو تو ظالم نہ ہنسانا ہرگز

آخری دور میں بھی تجھ کو قسم ہے ساقی
بھر کے اک جام نہ پیاسوں کو پلانا ہرگز

بخت سوئے ہیں بہت جاگ کے اے دور زماں
نہ ابھی نیند کے ماتوں کو جگانا ہرگز

کبھی اے علم و ہنر گھر تھا تمہارا دلی
ہم کو بھولے ہو تو گھر بھول نہ جانا ہرگز

شاعری مر چکی اب زندہ نہ ہوگی یارو
یاد کر کر کے اسے جی نہ کڑھانا ہرگز

غالبؔ و شیفتہؔ و نیرؔ و آزردہؔ و ذوقؔ
اب دکھائے گا یہ شکلیں نہ زمانا ہرگز

مومنؔ و علویؔ و صہبائیؔ و ممنوںؔ کے بعد
شعر کا نام نہ لے گا کوئی دانا ہرگز

کر دیا مر کے یگانوں نے یگانہ ہم کو
ورنہ یاں کوئی نہ تھا ہم میں یگانہ ہرگز

داغؔ و مجروحؔ کو سن لو کہ پھر اس گلشن میں
نہ سنے گا کوئی بلبل کا ترانہ ہرگز

رات آخر ہوئی اور بزم ہوئی زیر و زبر
اب نہ دیکھوگے کبھی لطف شبانہ ہرگز

بزم ماتم تو نہیں بزم سخن ہے حالیؔ
یاں مناسب نہیں رو رو کے رلانا ہرگز

(6)عشق کو ترک جنوں سے کیا غرض

عشق کو ترک جنوں سے کیا غرض
چرخ گرداں کو سکوں سے کیا غرض

دل میں ہے اے خضر گر صدق طلب
راہرو کو رہنموں سے کیا غرض

حاجیو ہے ہم کو گھر والے سے کام
گھر کے محراب و ستوں سے کیا غرض

گنگنا کر آپ رو پڑتے ہیں جو
ان کو چنگ و ارغنوں سے کیا غرض

نیک کہنا نیک جس کو دیکھنا
ہم کو تفتیش دروں سے کیا غرض

دوست ہیں جب زخم دل سے بے خبر
ان کو اپنے اشک خوں سے کیا غرض

عشق سے ہے مجتنب زاہد عبث
شیر کو صید زبوں سے کیا غرض

کر چکا جب شیخ تسخیر قلوب
اب اسے دنیائے دوں سے کیا غرض

آئے ہو حالیؔ پئے تسلیم یاں
آپ کو چون و چگوں سے کیا غرض

(7)بات کچھ ہم سے بن نہ آئی آج

بات کچھ ہم سے بن نہ آئی آج
بول کر ہم نے منہ کی کھائی آج

چپ پر اپنی بھرم تھے کیا کیا کچھ
بات بگڑی بنی بنائی آج

شکوہ کرنے کی خو نہ تھی اپنی
پر طبیعت ہی کچھ بھر آئی آج

بزم ساقی نے دی الٹ ساری
خوب بھر بھر کے خم لنڈھائی آج

معصیت پر ہے دیر سے یا رب
نفس اور شرع میں لڑائی آج

غالب آتا ہے نفس دوں یا شرع
دیکھنی ہے تری خدائی آج

چور ہے دل میں کچھ نہ کچھ یارو
نیند پھر رات بھر نہ آئی آج

زد سے الفت کی بچ کے چلنا تھا
مفت حالیؔ نے چوٹ کھائی آج

(8)ہے یہ تکیہ تری عطاؤں پر

ے یہ تکیہ تری عطاؤں پر
وہی اصرار ہے خطاؤں پر

رہیں نا آشنا زمانہ سے
حق ہے تیرا یہ آشناؤں پر

رہروو با خبر رہو کہ گماں
رہزنی کا ہے رہنماؤں پر

ہے وہ دیر آشنا تو عیب ہے کیا
مرتے ہیں ہم انہیں اداؤں پر

اس کے کوچہ میں ہیں وہ بے پر و بال
اڑتے پھرتے ہیں جو ہواؤں پر

شہسواروں پہ بند ہے جو راہ
وقف ہے یاں برہنہ پاؤں پر

نہیں منعم کو اس کی بوند نصیب
مینہ برستا ہے جو گداؤں پر

نہیں محدود بخششیں تیری
زاہدوں پر نہ پارساؤں پر

حق سے درخواست عفو کی حالیؔ
کیجے کس منہ سے ان خطاؤں پر

==================================================================

(9)اس کے جاتے ہی یہ کیا ہو گئی گھر کی صورت

اس کے جاتے ہی یہ کیا ہو گئی گھر کی صورت

نہ وہ دیوار کی صورت ہے نہ در کی صورت

کس سے پیمان وفا باندھ رہی ہے بلبل
کل نہ پہچان سکے گی گل تر کی صورت

ہے غم روز جدائی نہ نشاط شب وصل
ہو گئی اور ہی کچھ شام و سحر کی صورت

اپنی جیبوں سے رہیں سارے نمازی ہشیار
اک بزرگ آتے ہیں مسجد میں خضر کی صورت

دیکھیے شیخ مصور سے کھچے یا نہ کھچے
صورت اور آپ سے بے عیب بشر کی صورت

واعظو آتش دوزخ سے جہاں کو تم نے
یہ ڈرایا ہے کہ خود بن گئے ڈر کی صورت

کیا خبر زاہد قانع کو کہ کیا چیز ہے حرص
اس نے دیکھی ہی نہیں کیسۂ زر کی صورت

میں بچا تیر حوادث سے نشانہ بن کر
آڑے آئی مری تسلیم سپر کی صورت

شوق میں اس کے مزا درد میں اس کے لذت
ناصحو اس سے نہیں کوئی مفر کی صورت

حملہ اپنے پہ بھی اک بعد ہزیمت ہے ضرور
رہ گئی ہے یہی اک فتح و ظفر کی صورت

رہنماؤں کے ہوئے جاتے ہیں اوسان خطا
راہ میں کچھ نظر آتی ہے خطر کی صورت

یوں تو آیا ہے تباہی میں یہ بیڑا سو بار
پر ڈراتی ہے بہت آج بھنور کی صورت

ان کو حالیؔ بھی بلاتے ہیں گھر اپنے مہماں
دیکھنا آپ کی اور آپ کے گھر کی صورت

(10)گو جوانی میں تھی کج رائی بہت

گو جوانی میں تھی کج رائی بہت
پر جوانی ہم کو یاد آئی بہت

زیر برقع تو نے کیا دکھلا دیا
جمع ہیں ہر سو تماشائی بہت

ہٹ پہ اس کی اور پس جاتے ہیں دل
راس ہے کچھ اس کو خود رائی بہت

سرو یا گل آنکھ میں جچتے نہیں
دل پہ ہے نقش اس کی رعنائی بہت

چور تھا زخموں میں اور کہتا تھا دل
راحت اس تکلیف میں پائی بہت

آ رہی ہے چاہ یوسف سے صدا
دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت

وصل کے ہو ہو کے ساماں رہ گئے
مینہ نہ برسا اور گھٹا چھائی بہت

جاں نثاری پر وہ بول اٹھے مری
ہیں فدائی کم تماشائی بہت

ہم نے ہر ادنیٰ کو اعلیٰ کر دیا
خاکساری اپنی کام آئی بہت

کر دیا چپ واقعات دہر نے
تھی کبھی ہم میں بھی گویائی بہت

گھٹ گئیں خود تلخیاں ایام کی
یا گئی کچھ بڑھ شکیبائی بہت

ہم نہ کہتے تھے کہ حالیؔ چپ رہو
راست گوئی میں ہے رسوائی بہت

 

biografy of altaf husain hali / خواجہ الطاف حسین حالی

A beautiful personality of Urdu literature whose name is Altaf Hussain Hali. Khawaja Altaf Hussain Hali was born in 1837. He became an orphan at the age of 9 years. He came to Delhi and got the apprenticeship of Maza Ghalib.

After 1857, he was finally employed in the Government Book. He was the first to establish national and moral poetry.
And with his words, he awakened the sleeping Muslims of India. He instilled in them the spirit of patriotism. And the wave of liberation started, Masad-e-hali she has the status of Sangim in poetry with this confidence.

He wept not only for himself but also for others, remembering the greatness of Aslaf and the glorious past of the Muslims. Such excellent poetry is a prominent part of his words. It leaves a deep impression on the heart and mind of the reader. Some of his ghazals are of ancient style and some are of modern style. In the ghazal of Altaf Hussain Hali Sincerity is truth and truthfulness.

That is why it is detailed. There are also painful things that are expressed in a natural way. Their civility and nobility are prominent everywhere. In 1904, due to his scholarly ability and services, he was awarded the title of Shmasul Ulma.

Altaf Husain Hali Books 

HAyat -i- Javed

Muqadama -e- Sher-o-sheri

Yad Gar Gaklib

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*